اسے سامان سفر جان یہ جگنو رکھ لے
راہ میں تیرگی ہوگی مرے آنسو رکھ لے
تو جو چاہے تو ترا جھوٹ بھی بک سکتا ہے
شرط اتنی ہے کہ سونے کی ترازو رکھ لے
وہ کوئی جسم نہیں ہے کہ اسے چھو بھی سکیں
ہاں اگر نام ہی رکھنا ہے تو خوشبو رکھ لے
تجھ کو ان دیکھی بلندی میں سفر کرنا ہے
احتیاطاً مری ہمت مرے بازو رکھ لے
مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
غزل
اسے سامان سفر جان یہ جگنو رکھ لے
راحتؔ اندوری