چراغوں کا گھرانا چل رہا ہے
ہوا سے دوستانہ چل رہا ہے
جوانی کی ہوائیں چل رہی ہیں
بزرگوں کا خزانہ چل رہا ہے
مری گم گشتگی پر ہنسنے والو
مرے پیچھے زمانہ چل رہا ہے
ابھی ہم زندگی سے مل نہ پائے
تعارف غائبانہ چل رہا ہے
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
وہی دنیا وہی سانسیں وہی ہم
وہی سب کچھ پرانا چل رہا ہے
زیادہ کیا توقع ہو غزل سے
میاں بس آب و دانہ چل رہا ہے
سمندر سے کسی دن پھر ملیں گے
ابھی پینا پلانا چل رہا ہے
وہی محشر وہی ملنے کا وعدہ
وہی بوڑھا بہانا چل رہا ہے
یہاں اک مدرسہ ہوتا تھا پہلے
مگر اب کارخانہ چل رہا ہے
غزل
چراغوں کا گھرانا چل رہا ہے
راحتؔ اندوری