صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے
اے خدا دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہئے
شہر کی ساری الف لیلائیں بوڑھی ہو چکیں
شاہزادے کو کوئی تازہ کہانی چاہئے
میں نے اے سورج تجھے پوجا نہیں سمجھا تو ہے
میرے حصے میں بھی تھوڑی دھوپ آنی چاہئے
میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں
تم زلیخا ہو تمہیں قیمت لگانی چاہئے
زندگی ہے اک سفر اور زندگی کی راہ میں
زندگی بھی آئے تو ٹھوکر لگانی چاہئے
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے
غزل
صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے
راحتؔ اندوری