EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جس مصلے پہ چھڑکئے نہ شراب
اپنے آئین میں وہ پاک نہیں

قائم چاندپوری




جوں شیشہ بھرا ہوں مے سے لیکن
مستی سے میں اپنی بے خبر ہوں

قائم چاندپوری




کہتا ہے آئنہ کہ ہے تجھ سا ہی ایک اور
باور نہیں تو لا میں ترے روبرو کروں

قائم چاندپوری




کر نہ جرأت تو اے طبیب کہ یہ
دل کا دھڑکا ہے اختلاج نہیں

قائم چاندپوری




خس نمط ساتھ موج کے لگ لے
بہتے بہتے کہیں تو جائیے گا

قائم چاندپوری




کی وفا کس سے بھلا فاحشۂ دنیا نے
ہے تجھے شوق جو اس قحبہ کی دامادی کا

قائم چاندپوری




کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا
ہر اک محلہ کی مسجد شراب خانہ تھا

قائم چاندپوری