آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
غنچہ کرے گلوں کو صبا گر میں بو کروں
آزردہ اس چمن میں ہوں مانند برگ خشک
چھیڑے جو ٹک نسیم مجھے سو غلو کروں
آنکھوں سے جائے اشک گریں گل چمن چمن
منظور گریہ گر میں ترا رنگ و بو کروں
آیا ہوں پارہ دوزئی دل سے نپٹ بتنگ
ایسے پھٹے ہوئے کو میں کب تک رفو کروں
کیا آرزو کہ خاک میں اپنی ملیں نہ یاں
کس رو سے اب فلک سے میں کچھ آرزو کروں
کہتا ہے آئنہ کہ ہے تجھ سا ہی ایک اور
باور نہیں تو لا میں ترے روبرو کروں
سارے ہی اس چمن سے ہوا خواہ اٹھ گئے
روؤں گلوں کو یا میں غم رنگ و بو کروں
قائمؔ یہ جی میں ہے کہ تقید سے شیخ کی
اب کے جو میں نماز کروں بے وضو کروں
غزل
آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں
قائم چاندپوری