EN हिंदी
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے | شیح شیری
jo hum pe guzre the ranj sare jo KHud pe guzre to log samjhe

غزل

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

احمد سلمان

;

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے

وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے

اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفہ کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے

وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے

وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے