EN हिंदी
جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے | شیح شیری
jo dikh raha usi ke andar jo an-dikha hai wo shairi hai

غزل

جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے

احمد سلمان

;

جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے

یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے

دلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں
تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے وہ شاعری ہے

تمام دریا جو ایک سمندر میں گر رہے ہیں تو کیا عجب ہے
وہ ایک دریا جو راستے میں ہی رہ گیا ہے وہ شاعری ہے