EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں
ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا

احمد صغیر صدیقی




ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر
مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی

احمد صغیر صدیقی




اس عشق میں نہ پوچھو حال دل دریدہ
تم نے سنا تو ہوگا وہ شعر مصحفیؔ کا

احمد صغیر صدیقی




عشق اک مشغلۂ جاں بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ آزار کیا جائے اسے

احمد صغیر صدیقی




جی بھر کے ستارے جگمگائیں
مہتاب بجھا دیا گیا ہے

احمد صغیر صدیقی




کب سے میں سفر میں ہوں مگر یہ نہیں معلوم
آنے میں لگا ہوں کہ میں جانے میں لگا ہوں

احمد صغیر صدیقی




کبھی نہ بدلے دل با صفا کے طور طریق
عدو ملا تو اسے بھی سلام کرتے رہے

احمد صغیر صدیقی