یہ وقت بند دریچوں پہ لکھ گیا قیصرؔ
میں جا رہا ہوں مرا انتظار مت کرنا
قیصر الجعفری
زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے
میں ابھی تک تری تصویر لیے بیٹھا ہوں
قیصر الجعفری
زندگی نے مرا پیچھا نہیں چھوڑا اب تک
عمر بھر سر سے نہ اتری یہ بلا کیسی تھی
قیصر الجعفری
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
قمر جلال آبادی
کچھ تو ہے بات جو آتی ہے قضا رک رک کے
زندگی قرض ہے قسطوں میں ادا ہوتی ہے
قمر جلال آبادی
مرے خدا مجھے تھوڑی سی زندگی دے دے
اداس میرے جنازے سے جا رہا ہے کوئی
قمر جلال آبادی
راہ میں ان سے ملاقات ہو گئی
جس سے ڈرتے تھے وہی بات ہو گئی
قمر جلال آبادی