EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے
قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

قمر جلالوی




مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا
آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں

قمر جلالوی




مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے
تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ

قمر جلالوی




نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی
نگاہ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی

قمر جلالوی




نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے
کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی

قمر جلالوی




نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تم نے

قمر جلالوی




قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے
ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں

قمر جلالوی