EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے
شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے

قیصر الجعفری




دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا

قیصر الجعفری




دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

قیصر الجعفری




فن وہ جگنو ہے جو اڑتا ہے ہوا میں قیصرؔ
بند کر لو گے جو مٹھی میں تو مر جائے گا

قیصر الجعفری




گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

قیصر الجعفری




ہر شخص ہے اشتہار اپنا
ہر چہرہ کتاب ہو گیا ہے

قیصر الجعفری




ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا

قیصر الجعفری