EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

قمر جلالوی




ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں
کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ

قمر جلالوی




اس لئے آرزو چھپائی ہے
منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے

قمر جلالوی




جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے

قمر جلالوی




جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے
ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے

قمر جلالوی




کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

قمر جلالوی




خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا
شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے

قمر جلالوی