سہمے سہمے قافلے پتھر دل ہیں لوگ
ہم ہیں ان کے بیچ اب یہ تو اک سنجوگ
عاصم شہنواز شبلی
یاد آتا ہے رہ رہ کے چھوٹا سا وہ گاؤں
برگد پیپل کی وہی پیاری پیاری چھاؤں
عاصم شہنواز شبلی
عشق جیسے کہیں چھونے سے بھی لگ جاتا ہو
کون بیٹھے گا بھلا آپ کے بیمار کے ساتھ
عاطف وحید یاسرؔ
کس کے بدن کی نرمیاں ہاتھوں کو گدگدا گئیں
دشت فراق یار کو پہلوئے یار کر دیا
عاطف وحید یاسرؔ
مری راکھ میں تھیں کہیں کہیں میرے ایک خواب کی کرچیاں
میرے جسم و جاں میں چھپا ہوا تری قربتوں کا خیال تھا
عاطف وحید یاسرؔ
رہزنوں کے ہاتھ سارا انتظام آیا تو کیا
پھر وفا کے مجرموں میں میرا نام آیا تو کیا
عاطف وحید یاسرؔ
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہو جاتا ہوں میں
آتش بہاولپوری