EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سہمے سہمے قافلے پتھر دل ہیں لوگ
ہم ہیں ان کے بیچ اب یہ تو اک سنجوگ

عاصم شہنواز شبلی




یاد آتا ہے رہ رہ کے چھوٹا سا وہ گاؤں
برگد پیپل کی وہی پیاری پیاری چھاؤں

عاصم شہنواز شبلی




عشق جیسے کہیں چھونے سے بھی لگ جاتا ہو
کون بیٹھے گا بھلا آپ کے بیمار کے ساتھ

عاطف وحید یاسرؔ




کس کے بدن کی نرمیاں ہاتھوں کو گدگدا گئیں
دشت فراق یار کو پہلوئے یار کر دیا

عاطف وحید یاسرؔ




مری راکھ میں تھیں کہیں کہیں میرے ایک خواب کی کرچیاں
میرے جسم و جاں میں چھپا ہوا تری قربتوں کا خیال تھا

عاطف وحید یاسرؔ




رہزنوں کے ہاتھ سارا انتظام آیا تو کیا
پھر وفا کے مجرموں میں میرا نام آیا تو کیا

عاطف وحید یاسرؔ




آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہو جاتا ہوں میں

آتش بہاولپوری