تری دوستی کا کمال تھا مجھے خوف تھا نہ ملال تھا
مرا روم روم تھا حیرتی مرا دل بھی محو دھمال تھا
کوئی شاخ گریہ لپٹ گئی مرے سوکھتے ہوئے جسم سے
میں خزاں کی رت میں ہرا ہوا یہ ''درود'' ہی میں کمال تھا
ابھی ریگ دشت پہ ثبت ہیں سبھی نقش میرے سجود کے
وہ جو معرکے کا سبب ہوا وہی حرف حق مری ڈھال تھا
مری راکھ میں تھیں کہیں کہیں میرے ایک خواب کی کرچیاں
میرے جسم و جاں میں چھپا ہوا تری قربتوں کا خیال تھا
انہی حیرتوں میں بسر ہوئی نہ خبر ہوئی کہ سحر ہوئی
یہ تمام عرصۂ زندگی کہ محیط شام وصال تھا
غزل
تری دوستی کا کمال تھا مجھے خوف تھا نہ ملال تھا
عاطف وحید یاسرؔ