EN हिंदी
رہزنوں کے ہاتھ سارا انتظام آیا تو کیا | شیح شیری
rahzanon ke hath sara intizam aaya to kya

غزل

رہزنوں کے ہاتھ سارا انتظام آیا تو کیا

عاطف وحید یاسرؔ

;

رہزنوں کے ہاتھ سارا انتظام آیا تو کیا
پھر وفا کے مجرموں میں میرا نام آیا تو کیا

میرے قاتل تجھ کو آخر کون سمجھائے یہ بات
پر شکستہ ہو کے کوئی زیر دام آیا تو کیا

پھر وہ بلوایا گیا ہے کربلائے عصر میں
کوفیوں کو پھر سے شوق اہتمام آیا تو کیا

کھو چکی ساری بصیرت سو چکے اہل کتاب
آسمانوں سے کوئی تازہ پیام آیا تو کیا

جب کہ ان آنکھوں کی مشعل بام پر روشن نہیں
شہر میں یاسرؔ کوئی ماہ تمام آیا تو کیا