آنکھوں کو نقش پا ترا دل کو غبار کر دیا
ہم نے وداع یار کو اپنا حصار کر دیا
اس کی چھون سے جل اٹھا میرے بدن کا روم روم
مجھ کو تو دست یار نے جیسے چنار دیا
کس کے بدن کی نرمیاں ہاتھوں کو گدگدا گئیں
دشت فراق یار کو پہلوئے یار کر دیا
اب کے تو مجھ پہ اس طرح ساقی ہوا ہے مہرباں
سارے دکھوں کو چوم کر مے کا خمار کر دیا
مانا سخن تری عطا پھر بھی کمال ہے مرا
میں نے ترے جمال کو رشک بہار کر دیا
مجھ سے گلہ بجا مگر تم بھی کبھی یہ سوچنا
مجھ کو انا کے رخش پر کس نے سوار کر دیا
ظلمت ہجر میں سدا اس نے دیا ہے حوصلہ
اب کے مگر بجھا دیا اس نے بھی ہار کر دیا
غزل
آنکھوں کو نقش پا ترا دل کو غبار کر دیا
عاطف وحید یاسرؔ