آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہو جاتا ہوں میں
دار پر چڑھ کر کبھی منصور ہو جاتا ہوں میں
طور پر جا کر کلیم طور ہو جاتا ہوں میں
یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں
پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہو جاتا ہوں میں
اپنی فطرت کیا کہوں اپنی طبیعت کیا کہوں؟
دوسروں کے غم میں بھی رنجور ہو جاتا ہوں میں
مجھ کو آتشؔ بادہ و ساغر سے ہو کیا واسطہ؟
ان کی آنکھیں دیکھ کر مخمور ہو جاتا ہوں میں
غزل
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
آتش بہاولپوری