زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے؟
دعا تو مانگیے آتشؔ کبھی دعا کی طرح
آتش بہاولپوری
آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط
کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے
عازم کوہلی
عازمؔ تیری بربادی میں سب نے مل جل کر کام کیا
کچھ کھیل لکیروں کا بھی ہے کچھ وقت کی کارگزاری بھی
عازم کوہلی
بات چل نکلے گی پھر اقرار کی انکار کی
پھر وہی بچپن کے بھولے گیت گائے جائیں گے
عازم کوہلی
دیکھا نہ تجھے اے رب ہم نے ہاں دنیا تیری دیکھی ہے
سڑکوں پر بھوکے بچے بھی کوٹھے پر ابلہ ناری بھی
عازم کوہلی
دیکھنا کیسے پگھلتے جاؤ گے
جب مری آغوش میں تم آؤ گے
عازم کوہلی
دکھ پہ میرے رو رہا تھا جو بہت
جاتے جاتے کہہ گیا اچھا ہوا
عازم کوہلی