گفتگو کرنے لگے ریت کے انبار کے ساتھ
دوستی ہو گئی آخر مری اشجار کے ساتھ
عشق جیسے کہیں چھونے سے بھی لگ جاتا ہو
کون بیٹھے گا بھلا آپ کے بیمار کے ساتھ
صاحبو مجھ کو ابھی رقص نہیں آتا ہے
جھوم لیتا ہوں فقط شام کے آثار کے ساتھ
یار کچھ بول مجھے کچھ تو یقیں آ جائے
میں تجھے دیکھتا ہوں دیدۂ بیدار کے ساتھ
صف سے نکلا مرا سالار رجز پڑھتے ہوئے
اور پھر میری طرف چل پڑا اغیار کے ساتھ
غزل
گفتگو کرنے لگے ریت کے انبار کے ساتھ
عاطف وحید یاسرؔ