EN हिंदी
آج میری پلکوں پر قدسیوں کا میلہ ہے | شیح شیری
aaj meri palkon par qudsiyon ka mela hai

غزل

آج میری پلکوں پر قدسیوں کا میلہ ہے

اویس الحسن خان

;

آج میری پلکوں پر قدسیوں کا میلہ ہے
عشق تیری محفل میں دل کہاں اکیلا ہے

حوریں تیری یادوں کی جنتیں سجاتی ہیں
ان سے آج یہ کہہ دو زندگی جھمیلا ہے

آئینہ سنورتا ہے ان کے دیکھے جانے سے
رنگ و نور کہتا ہے روشنی کا ریلا ہے

درد دل کو بھاتے ہیں جانے کیوں لبھاتے ہیں
آنکھ کے ستاروں کا سجتا روز میلہ ہے

زندگی کی راہوں میں زندگی نہیں ملتی
روز و شب کے میلے میں جانے کیا جھمیلا ہے

عشق کی تمنا تھی عشق کی تمنا ہے
عشق ہی کی راہوں میں مستیوں کا میلہ ہے

خود شناس کیا ہوگا دل اگر اسے ڈھونڈے
وصل کی تمنا میں کس قدر جھمیلا ہے