اے ہم نفسو! شب ہے گراں جاگتے رہنا
ہر لحظہ ہے یاں خطرۂ جاں جاگتے رہنا
ایسا نہ ہو یہ رات کوئی حشر اٹھا دے
اٹھتا ہے ستاروں سے دھواں جاگتے رہنا
اب حسن کی دنیا میں بھی آرام نہیں ہے
ہے شور سر کوئے بتاں جاگتے رہنا
یہ صحن گلستاں نہیں مقتل ہے رفیقو!
ہر شاخ ہے تلوار یہاں جاگتے رہنا
بے داروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوراںؔ
اک شمع لئے تم بھی یہاں جاگتے رہنا
غزل
اے ہم نفسو! شب ہے گراں جاگتے رہنا
اویس احمد دوراں