EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دکھاؤ صورت تازہ بیان سے پہلے
کہانی اور ہے کچھ داستان سے پہلے

عبید الرحمان




گھٹتی بڑھتی رہی پرچھائیں مری خود مجھ سے
لاکھ چاہا کہ مرے قد کے برابر اترے

عبید الرحمان




ہمیں ہجرت سمجھ میں اتنی آئی
پرندہ آب و دانہ چاہتا ہے

عبید الرحمان




ہمیں تو خواب کا اک شہر آنکھوں میں بسانا تھا
اور اس کے بعد مر جانے کا سپنا دیکھ لینا تھا

عبید الرحمان




جب دھوپ سر پہ تھی تو اکیلا تھا میں عبیدؔ
اب چھاؤں آ گئی ہے تو سب یار آئے ہیں

عبید الرحمان




جہاں پہنچنے کی خواہش میں عمر بیت گئی
وہیں پہنچ کے حیات اک خیال خام ہوئی

عبید الرحمان




کوئی دماغ سے کوئی شریر سے ہارا
میں اپنے ہاتھ کی اندھی لکیر سے ہارا

عبید الرحمان