پہلے گھرے تھے بے خبروں کے ہجوم میں
اب آ گئے ہیں دیدہ وروں کے ہجوم میں
کچھ بھی نہیں ہے اڑتی ہوئی راکھ کے سوا
کیا ڈھونڈتے ہو کم نظروں کے ہجوم میں
شہروں میں آئنوں کے خریدار ہی نہیں
اک بے کلی ہے شیشہ گروں کے ہجوم میں
پہچان لیجے کون ہے انساں کا رہنما
ان بے شمار راہبروں کے ہجوم میں
پیوند کی طرح نظر آتا ہے بد نما
پختہ مکان کچے گھروں کے ہجوم میں
تیشہ بدست ہر کوئی رہتا ہے رات دن
ہم دل جلوں کے بے جگروں کے ہجوم میں
دوراںؔ بھی احتجاج ہی کرتے ہوئے ملے
سڑکوں پہ گشت کرتے سروں کے ہجوم میں
غزل
پہلے گھرے تھے بے خبروں کے ہجوم میں
اویس احمد دوراں