EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شام ہوتی ہے تو میرا ہی فسانہ اکثر
وہ جو ٹوٹا ہوا تارا ہے سناتا ہے مجھے

عبید اللہ صدیقی




یہ آنکھیں یہ دماغ یہ زخموں کا گھر بدن
سب محو خواب ہیں دل بے تاب کے سوا

عبید اللہ صدیقی




یہ کس کا چہرہ دمکتا ہے میری آنکھوں میں
یہ کس کی یاد مجھے کہکشاں سے آتی ہے

عبید اللہ صدیقی




زندگی اک خواب ہے یہ خواب کی تعبیر ہے
حلقۂ گیسوئے دنیا پاؤں کی زنجیر ہے

عبید اللہ صدیقی




آنگن آنگن خون کے چھینٹے چہرہ چہرہ بے چہرہ
کس کس گھر کا ذکر کروں میں کس کس کے صدمات لکھوں

عبید الرحمان




اپنی ہی ذات کے محبس میں سمانے سے اٹھا
درد احساس کا سینے میں دبانے سے اٹھا

عبید الرحمان




بچوں کو ہم نہ ایک کھلونا بھی دے سکے
غم اور بڑھ گیا ہے جو تہوار آئے ہیں

عبید الرحمان