EN हिंदी
اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا | شیح شیری
is shahr-e-tishnagi mein kahin aab ke siwa

غزل

اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا

عبید اللہ صدیقی

;

اس شہر تشنگی میں کہیں آب کے سوا
کچھ بھی نظر نہ آیا مجھے خواب کے سوا

پھر کس کے کام آئے گی میری شناوری
دریا میں کچھ نہ ہوگا جو گرداب کے سوا

اس روشنی میں جس سے منور ہے کائنات
سب کچھ دکھائی دیتا ہے مہتاب کے سوا

باغ جہاں کی سیر میں اب کیا بتاؤں میں
کیا کیا مجھے ملا گل شاداب کے سوا

یہ آنکھیں یہ دماغ یہ زخموں کا گھر بدن
سب محو خواب ہیں دل بے تاب کے سوا

اہل جنوں کو اس کی خبر دیر سے ہوئی
اک گھر بھی ہوگا دشت فسوں تاب کے سوا