EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں اس کو بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا
تو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی

عبید اللہ علیم




مجھ سے مرا کوئی ملنے والا
بچھڑا تو نہیں مگر ملا دے

عبید اللہ علیم




پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اک شخص

عبید اللہ علیم




پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ روح نیند میں تھی اور جاگتا تھا میں

عبید اللہ علیم




روشنی آدھی ادھر آدھی ادھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ

عبید اللہ علیم




شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں

عبید اللہ علیم




شاید کہ خدا میں اور مجھ میں
اک جست کا اور فاصلہ ہے

عبید اللہ علیم