EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دکھا سا لگتا ہے

عبید اللہ علیم




صبح چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا

عبید اللہ علیم




سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا

عبید اللہ علیم




تم اپنے رنگ نہاؤ میں اپنی موج اڑوں
وہ بات بھول بھی جاؤ جو آنی جانی ہوئی

عبید اللہ علیم




تم ہم سفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز
مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا

عبید اللہ علیم




تو بوئے گل ہے اور پریشاں ہوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتۂ آوارگی تو ہے

عبید اللہ علیم




یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

عبید اللہ علیم