پہلے چنگاری سے اک شعلہ بناتا ہے مجھے
پھر وہی تیز ہواؤں سے ڈراتا ہے مجھے
بین کرتے ہوئے اس رات کے سناٹے میں
دشت سے گھر کی طرف کون بلاتا ہے مجھے
گرد ہوتے ہوئے چہرے سے ملانے کے لیے
آئنہ خانے میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے
شام ہوتی ہے تو میرا ہی فسانہ اکثر
وہ جو ٹوٹا ہوا تارا ہے سناتا ہے مجھے
ریگ صحرا سے تعلق کو بڑھا دیتا ہے
خواب میں جب بھی وہ دریا نظر آتا ہے مجھے

غزل
پہلے چنگاری سے اک شعلہ بناتا ہے مجھے
عبید اللہ صدیقی