زندگی اک خواب ہے یہ خواب کی تعبیر ہے
حلقۂ گیسوئے دنیا پاؤں کی زنجیر ہے
کچھ نہیں اس کے سوا میرے تصرف میں یہاں
دل کا بس جتنا علاقہ درد کی جاگیر ہے
پتلیاں آنکھوں کی ساکت ہو گئیں پڑھتے ہوئے
آسماں پر کس زباں میں جانے کیا تحریر ہے
مجھ کو گویائی پہ اکسایا تھا دل نے ایک بار
آج تک ہونٹوں پہ قائم لذت تقریر ہے
اب نہ جانے کس طرف لے جائیں وحشی آندھیاں
شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا بہت دلگیر ہے
سب بہادر ہیں یہاں ذکر اجل ہونے تلک
بزدلی اس کو کہوں یا خون کی تاثیر ہے

غزل
زندگی اک خواب ہے یہ خواب کی تعبیر ہے
عبید اللہ صدیقی