EN हिंदी
مٹی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا | شیح شیری
miTTi tha main KHamir tere naz se uTha

غزل

مٹی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا

عبید اللہ علیم

;

مٹی تھا میں خمیر ترے ناز سے اٹھا
پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا

انسان ہو کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا

صبح چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا

سو کرتبوں سے لکھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھا کسی اعجاز سے اٹھا

اے شہسوار حسن یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سر زمیں ہے قدم ناز سے اٹھا

میں پوچھ لوں کہ کیا ہے مرا جبر و اختیار
یارب یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا

وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود
میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا

شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیمؔ
قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا