EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

گرمی سی یہ گرمی ہے
مانگ رہے ہیں لوگ پناہ

عبید صدیقی




میں بس یہ کہہ رہا ہوں رسم وفا جہاں میں
بالکل نہیں مٹی ہے کمیاب ہو گئی ہے

عبید صدیقی




میں پہلے بے باک ہوا تھا جوش محبت میں
میری طرح پھر اس نے بھی شرمانا چھوڑا تھا

عبید صدیقی




اداسی آج بھی ویسی ہے جیسے پہلے تھی
مکیں بدلتے رہے ہیں مکاں نہیں بدلا

عبید صدیقی




آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

عبید اللہ علیم




آؤ تم ہی کرو مسیحائی
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی

عبید اللہ علیم




اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے

عبید اللہ علیم