اپنے بعد حقیقت یا افسانہ چھوڑا تھا
پھول کھلے تھے میں نے جب ویرانہ چھوڑا تھا
سانس گھٹی جاتی تھی کیسا حبس کا عالم تھا
یاد ہے جس دن سبزے نے لہرانا چھوڑا تھا
آنسو گرے تو خاک بدن سے خوشبو پھوٹی تھی
مینہ برسا تو موسم نے گرمانا چھوڑا تھا
میرے علاوہ کس کو خبر ہے لیکن میں چپ ہوں
ساحل سے کیوں موجوں نے ٹکرانا چھوڑا تھا
میں پہلے بے باک ہوا تھا جوش محبت میں
میری طرح پھر اس نے بھی شرمانا چھوڑا تھا
غزل
اپنے بعد حقیقت یا افسانہ چھوڑا تھا
عبید صدیقی