EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اگر ہوں کچے گھروندوں میں آدمی آباد
تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے

عبید اللہ علیم




اہل دل کے درمیاں تھے میرؔ تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ

عبید اللہ علیم




اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے
اے میری روشنی تو مجھے راستا دکھا

عبید اللہ علیم




عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

عبید اللہ علیم




بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

عبید اللہ علیم




بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات

عبید اللہ علیم




درود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں
تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لیے

عبید اللہ علیم