ہونٹ کھلیں تو نکلے واہ
دنیا ایک تماشا گاہ
رشک فلک ہے یہ بستی
ہر چہرہ ہے مہر و ماہ
اب کے ہاتھ وہ کھیلا ہے
داؤں پر ہیں عز و جاہ
رنگ بہت سے اور بھی ہیں
ہر شے کب ہے سفید و سیاہ
ساتھ کسی کو چلنا ہے
سوجھ گئی ہے مجھ کو راہ
اب کے بہار کی یورش ہے
گل بوٹے ہیں اس کی سپاہ
پاگل ہیں جو صحرا سے
مانگ رہے ہیں آب و گیاہ
کام ہزاروں کرنے ہیں
کیا کیا رکھیں پیش نگاہ
اس کی آمد آمد ہے
دل آنکھیں ہیں چشم براہ
گرمی سی یہ گرمی ہے
مانگ رہے ہیں لوگ پناہ
غزل
ہونٹ کھلیں تو نکلے واہ
عبید صدیقی