EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اک ستم ڈھانے میں فرد ایک ستم سہنے میں
الغرض ہے نہ تمہارا نہ مرا دل ناقص

نوح ناروی




اس کم سنی میں ہو انہیں میرا خیال کیا
وہ کے برس کے ہیں ابھی سن کیا ہے سال کیا

نوح ناروی




عشق میں کچھ نظر نہیں آیا
جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے

نوح ناروی




جانے کو جائے فصل گل آنے کو آئے ہر برس
ہم غم زدوں کے واسطے جیسے چمن ویسے قفس

نوح ناروی




جب ذکر کیا میں نے کبھی وصل کا ان سے
وہ کہنے لگے پاک محبت ہے بڑی چیز

نوح ناروی




جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

نوح ناروی




جو اہل ذوق ہیں وہ لطف اٹھا لیتے ہیں چل پھر کر
گلستاں کا گلستاں میں بیاباں کا بیاباں میں

نوح ناروی