اس شجر پر کچھ دنوں تک آشیاں میرا بھی تھا
چار رنگوں کا سہی لیکن مکاں میرا بھی تھا
حق تمہاری طرح ہر شے پر یہاں میرا بھی تھا
یہ زمیں میری بھی تھی یہ آسماں میرا بھی تھا
دیکھ لو میری جبیں پر بھی ہیں سجدوں کے نشاں
زندگی کے واسطے اک آستاں میرا بھی تھا
اس لیے ہونٹوں کو میرے پیاس چھو پاتی نہیں
دختر رز بھی مری پیر مغاں میرا بھی تھا
جانے کیوں دوزخ سے بد تر ہو گئے حالات آج
رشک جنت کل تلک ہندوستاں میرا بھی تھا
آزمایا ظرف کو میرے بھی دنیا نے نوابؔ
زیست کے ہر موڑ پر اک امتحاں میرا بھی تھا
غزل
اس شجر پر کچھ دنوں تک آشیاں میرا بھی تھا
نواب شاہ آبادی