اکثر زمیں سے اڑ کے فلک پر گیا ہوں میں
مشکل تھا یہ کمال مگر کر گیا ہوں میں
میں جانتا تھا ہوگی نہ مجھ پر نظر کبھی
محفل میں ان کی پھر بھی برابر گیا ہوں میں
پتھر تراش کر کے تو ایشور بنا دیا
اپنے ہی شہکار سے کیوں ڈر گیا ہوں میں
روشن کیا ہے میں نے ہمیشہ وفا کا نام
دار و رسن کی سمت بھی اکثر گیا ہوں میں
ٹوکا ہر اک گام پہ میرے ضمیر نے
جب بھی حدود شوق کے باہر گیا ہوں میں
مقتل کا حال دیکھا ہے میں نے قریب سے
کوچے میں قاتلوں کے بھی اکثر گیا ہوں میں
احساس مجھ کو اتنا بھی اب تو نہیں نوابؔ
میں جی رہا ہوں آج بھی کہ مر گیا ہوں میں
غزل
اکثر زمیں سے اڑ کے فلک پر گیا ہوں میں
نواب شاہ آبادی