وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خود بہ خود بے ساختہ میں ہنس پڑا
اس نے اس درجہ رلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گنگناتا جا رہا تھا اک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایا دیر تک
کل اندھیری رات میں میری طرح
ایک جگنو جگمگایا دیر تک
غزل
وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
نواز دیوبندی