EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

ناصر کاظمی




یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

ناصر کاظمی




یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی




یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں
پھر بھی ہر دل کے مقدر میں نہیں تنہائی

ناصر کاظمی




ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا
ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

ناصر کاظمی




زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے

ناصر کاظمی




اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے

ناصر شہزاد