EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

چوکھٹا دل کا یہاں ہے ہو بہ ہو تجھ سا کوئی
ہونٹ بھی آنکھیں بھی چھب ڈھب بھی تجھی سا فیس بھی

ناصر شہزاد




دریا پہ ٹیکری سے پرے خانقاہ تھی
تب تیرے میرے پیار کی دنیا گواہ تھی

ناصر شہزاد




دیکھا قد گناہ پہ جب اس کو ملتفت
بڑھ کر حد نگاہ لگی اس کو ڈھانپنے

ناصر شہزاد




دینا مرا سندیش سکھی پھر
پہلے چھونا اس کے پاؤں

ناصر شہزاد




ایک کاٹا رام نے سیتا کے ساتھ
دوسرا بن باس میرے نام پر

ناصر شہزاد




ہم وہ لوگ ہیں جو چاہت میں
جی نہ سکیں تو مر رہتے ہیں

ناصر شہزاد




ہجرتوں میں حضوریوں کے جتن
پاؤں کو دوریوں نے گھیرا ہے

ناصر شہزاد