EN हिंदी
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے | شیح شیری
yun tere husn ki taswir ghazal mein aae

غزل

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

ناصر کاظمی

;

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے

جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے

یہ بھی آرائش ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقۂ فکر سے میدان عمل میں آئے

ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر
ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے

زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے