EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پاٹی ہیں ہم نے بپھری چنابیں ترے لئے
ہم لے گئے ہیں تجھ کو سوئمبر سے جیت کے

ناصر شہزاد




پھر مجھے مل ندی کنارے کہیں
پھر بڑھا مان آ کے راہوں کا

ناصر شہزاد




پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یوں ہی بچھڑ گیا
پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یوں ہی کٹ گئے

ناصر شہزاد




پستکوں میں پرانوں میں ارضوں میں آسمانوں میں
ایک نام کی بھگتی ایک قول کا کلمہ

ناصر شہزاد




قائم ہے آبرو تو غنیمت یہی سمجھ
میلے سے ہیں جو کپڑے پھٹا سا جو بوٹ ہے

ناصر شہزاد




سنگت دلوں کی جیونوں مرنوں کا ارتباط
پھر ڈر پڑا تھا کیا تجھے گرد و نواح کا

ناصر شہزاد




سانس میں ساجنا ہوا کی طرح
سانس کا سلسلہ ہوا سے ہے

ناصر شہزاد