EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

ناصر کاظمی




سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

ناصر کاظمی




سورج سر پہ آ پہنچا
گرمی ہے یا روز جزا

ناصر کاظمی




طناب خیمۂ گل تھام ناصرؔ
کوئی آندھی افق سے آ رہی ہے

ناصر کاظمی




تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا

ناصر کاظمی




تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

ناصر کاظمی




ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے

ناصر کاظمی