EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

ناصر کاظمی




کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی

ناصر کاظمی




کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی




میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے

ناصر کاظمی




میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا

ناصر کاظمی




میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

ناصر کاظمی




میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہوں
تو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ

ناصر کاظمی