مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے
ناصر کاظمی
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
ناصر کاظمی
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
ناصر کاظمی
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
ناصر کاظمی
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
ناصر کاظمی
نئی دنیا کے ہنگاموں میں ناصرؔ
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
ناصر کاظمی

