EN हिंदी
خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے | شیح شیری
KHamoshi ungliyan chaTKHa rahi hai

غزل

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے

ناصر کاظمی

;

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے
تری آواز اب تک آ رہی ہے

دل وحشی لیے جاتا ہے لیکن
ہوا زنجیر سی پہنا رہی ہے

ترے شہر طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے

کرم اے صرصر آلام دوراں
دلوں کی آگ بجھتی جا رہی ہے

کڑے کوسوں کے سناٹے ہیں لیکن
تری آواز اب تک آ رہی ہے

طناب خیمۂ گل تھام ناصرؔ
کوئی آندھی افق سے آ رہی ہے