EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہ جانے کب نگہ باغباں بدل جائے
ہر آن پھولوں کو دھڑکا لگا سا رہتا ہے

ممتاز میرزا




رات کاٹے نہیں کٹتی ہے کسی صورت سے
دن تو دنیا کے بکھیڑوں میں گزر جاتا ہے

ممتاز میرزا




آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

منور خان غافل




آئے کبھی تو دشت سے وہ شہر کی طرف
مجنوں کے پاؤں میں جو نہ زنجیر جادہ ہو

منور خان غافل




عاشق کو نہ لے جائے خدا ایسی گلی میں
جھانکے نہ جہاں روزن دیوار سے کوئی

منور خان غافل




اگر عریانیٔ مجنوں پہ آتا رحم لیلیٰ کو
بنا دیتی قبا وہ چاک کر کے پردہ محمل کا

منور خان غافل




اپنے مجنوں کی ذرا دیکھ تو بے پروائی
پیرہن چاک ہے اور فکر سلانے کی نہیں

منور خان غافل