نہ جانے کب نگہ باغباں بدل جائے
ہر آن پھولوں کو دھڑکا لگا سا رہتا ہے
ممتاز میرزا
رات کاٹے نہیں کٹتی ہے کسی صورت سے
دن تو دنیا کے بکھیڑوں میں گزر جاتا ہے
ممتاز میرزا
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد
منور خان غافل
آئے کبھی تو دشت سے وہ شہر کی طرف
مجنوں کے پاؤں میں جو نہ زنجیر جادہ ہو
منور خان غافل
عاشق کو نہ لے جائے خدا ایسی گلی میں
جھانکے نہ جہاں روزن دیوار سے کوئی
منور خان غافل
اگر عریانیٔ مجنوں پہ آتا رحم لیلیٰ کو
بنا دیتی قبا وہ چاک کر کے پردہ محمل کا
منور خان غافل
اپنے مجنوں کی ذرا دیکھ تو بے پروائی
پیرہن چاک ہے اور فکر سلانے کی نہیں
منور خان غافل

