آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
میان میں اس نے جو کی تیغ جفا میرے بعد
خوں گرفتہ کوئی کیا اور نہ تھا میرے بعد
دوستی کا بھی تجھے پاس نہ آیا ہے ہے
تو نے دشمن سے کیا میرا گلا میرے بعد
گرم بازاریٔ الفت ہے مجھی سے ورنہ
کوئی لینے کا نہیں نام وفا میرے بعد
منہ پہ لے دامن گل روئیں گے مرغان چمن
باغ میں خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
چاک اسی غم سے گریبان کیا ہے میں نے
کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد
اب تو ہنس ہنس کے لگاتا ہے وہ مہندی لیکن
خون رلا دے گا اسے رنگ حنا میرے بعد
میں تو گلزار سے دل تنگ چلا غنچہ روش
مجھ کو کیا پھر جو کوئی پھول کھلا میرے بعد
وہ ہوا خواہ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا تھا اور باد صبا میرے بعد
سن کے مرنے کی خبر یار مرے گھر آیا
یعنی مقبول ہوئی میری وفا میرے بعد
ذبح کر کے مجھے نادم یہ ہوا وہ قاتل
ہاتھ میں پھر کبھی خنجر نہ لیا میرے بعد
میری ہی زمزمہ سنجی سے چمن تھا آباد
کیا صیاد نے اک اک کو رہا میرے بعد
آ گیا بیچ میں اس زلف کی اک میں ناداں
نہ ہوا کوئی گرفتار بلا میرے بعد
قتل تو کرتے ہو پر خوب ہی پچھتاؤ گے
مجھ سا ملنے کا نہیں اہل وفا میرے بعد
برگ گل لائی صبا قبر پہ میری نہ نسیم
پھر گئی ایسی زمانے کی ہوا میرے بعد
گر پڑے آنکھ سے اس کی بھی یکایک آنسو
ذکر محفل میں جو کچھ میرا ہوا میرے بعد
زیر شمشیر یہی سوچ ہے مقتل میں مجھے
دیکھیے اب کسے لاتی ہے قضا میرے بعد
شرط یاری یہی ہوتی ہے کہ تو نے غافلؔ
بھول کر بھی نہ مجھے یاد کیا میرے بعد
غزل
آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
منور خان غافل