پردۂ ذہن سے سایہ سا گزر جاتا ہے
جیسے پل بھر کو مرا دل بھی ٹھہر جاتا ہے
تیری یادوں کے دیے جب بھی جلاتا ہے یہ دل
حسن کچھ اور شب غم کا نکھر جاتا ہے
حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
رات بھیگے تو اک انجان سا بے نام سا درد
چاندنی بن کے فضاؤں میں بکھر جاتا ہے
رات کاٹے نہیں کٹتی ہے کسی صورت سے
دن تو دنیا کے بکھیڑوں میں گزر جاتا ہے
اس کو بھی کہتے ہیں ممتازؔ وفا کا نغمہ
دل بیتاب میں گھٹ گھٹ کے جو مر جاتا ہے
غزل
پردۂ ذہن سے سایہ سا گزر جاتا ہے
ممتاز میرزا