جب سے فریب زیست میں آنے لگا ہوں میں
خود اپنی مشکلوں کو بڑھانے لگا ہوں میں
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی
جس نے جی بھر کے تجلی کو کبھی دیکھا ہو
کوئی ایسا بھی تری جلوہ گہہ ناز میں ہے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی
کہاں رہ جائے تھک کر رہ نورد غم خدا جانے
ہزاروں منزلیں ہیں منزل آرام آنے تک
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی
تلاش صورت تسکیں نہ کر اوہام ہستی میں
دل محزوں بہل سکتا نہیں اس نقش باطل سے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی
اسی کو ہم سمجھ لیتے ہیں اپنا سادگی دیکھو
جو اپنے ساتھ راہ شوق میں دو گام آتا ہے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی
میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا
پھیکا پھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دیوالی کا
ممتاز گورمانی
آگہی بھولنے دیتی نہیں ہستی کا مآل
ٹوٹ کے خواب بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
ممتاز میرزا

